ٹریکٹر چلانے والے کسی تجربے کار ڈرائیور سے یہ توقع کرنا کہ وہ رولز رائیس بھی ویسی ہی مہارت سے چلالے گا، محض ایک حماقت ہے۔جس کا کام اسی کو ساجھے۔ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنا کام کرنے کی بجائے اس کام میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں جو حقیقت میں انکا کام نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں کسی کو شوگر کا اندیشہ ہو تو وہ ڈاکٹر کے پاس جانے اور لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کی بجائے محلے کے پرچون فروش یا پھر چائے کے کھوکھے والے سے مشورہ کرتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ جن غیر متعلقہ لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ مرض کی علامات، پرہیز اور احتیاط سے لے کر ادویات تک سب کچھ ہی بتادیتے ہیں۔انجینئر Motivational Speakerبنے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر روحانیت کے مبلغ۔کچھ ایلوپیتھک ڈاکٹر صاحبان حکیموں اور ہومیو پیتھس کی بنائی بے نام دواؤں کی مارکیٹنگ میں لگے ہوئے ہیں۔اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں،کیمرے کے سامنے بیٹھ کر65سے لے کر 71تک کی جنگوں کے بارے میں رٹے رٹائے دو چارجملے بولنے والے مفکرین چند ہفتوں میں اس بات پر اصرار کرنے لگتے ہیں کہ انہیں دفاعی تجزیہ کار کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ابھی چندروز پہلے تک پاکستان آرمی کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا جو طوفان بدتمیزی بپا رہا، اس کے پس منظر میں بھی کچھ لوگوں کی یہی کم فہمی بلکہ خوش فہمی مرکزی محرک تھی۔اس ملک میں اگر امن امان کو قائم رکھنا ہے تو ہمیں یو ٹیوبرز، وی لاگرز اور سوشل میڈیا افلاطونوں کو کہیں نہ کہیں نکیل ضرور ڈالنا پڑے گی۔
فوج کے اندرونی معاملات پر فلسفیانہ انداز میں نام نہاد تجزیاتی گفتگو کرنے والے اکثر یہ کہتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں کہ اصل مشکل زندگی تو میجر اور کرنل تک ہوتی ہے، اسی رینک کے لوگ محاذوں پر جان بھی قربان کرتے ہیں اور اسی لیے عام طور پر بہادری کے تمغات بھی اسی رینک تک کے لوگوں کو ملتے ہیں،اب ایسے نادان لوگوں کو یہ کون سمجھائے کہ جن اعلیٰ فوجی عہدے داروں کے حوالے سے وہ ڈھکی چھپی باتیں کہنا چاہتے ہیں وہ خود بھی انہی مراحل سے گزر کر ان اعلیٰ منزلوں تک پہنچتے ہیں۔آرمی چیف ہوں، آئی ایس آئی چیف یا پھر چیرمین جوائینٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، ان میں سے کسی کی بھی براہ راست بھرتی یا تعیناتی نہیں ہوتی۔یہ تمام لوگ زینہ بہ زینہ دھیرے دھیرے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت میں اضافہ کرتے ہوئے ان عہدوں تک پہنچتے ہیں۔اس سارے عرصے میں بارہا موت سے ان کا آمنا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اپنے گھر بار ، بیوی بچوں ، ماں باپ سے دوری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، کارگل کی جسم منجمد کردینے والی خون جما دینے والی یخ بستہ ہواؤں سے بھی سب ہی کا واسطہ پڑتا ہے، دسمبر جنوری میں شمالی علاقہ جات کے برفیلے دریاؤں میں مشقوں کے مراحل بھی سب ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس تصویر کا اک رخ اور بھی ہے۔جب کبھی دہشت گردوں سے مقابلے میں ہمای سیکیورٹی فورسز کاکوئی جوان یا افسر شہید ہوجاتا ہے اور اس کی میت اس کے گھر لائی جاتی ہے، تو اس کے بیوی بچے، ماں باپ ، بہن بھائی بھی اسی کرب کا شکار ہوتے ہیں جس کرب کو ہم سیولین اپنے پیاروں کی موت کی صورت میں سہتے ہیں۔کبھی آپ نے اس ماں کی بے بسی کا تصور کیا جسے اچانک سے اطلاع ملتی ہے کہ اس کا برسوں کی محنت سے پالا ہوا بیٹا بارودی سرنگ سے ٹکرا کر اللہ کو پیارا ہوگیا، کبھی آپ نے ان بچوں کے بارے میں سوچا جنہیں ایک دم سے پتا لگتا ہے کہ ان کے باپ کو دہشت گردوں نے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ اور ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو دشمن کے کسی حملے کا شکار ہوکر اپنے اعضاء سے محروم ہو کر باقی ساری زندگی وہیل چیئر پر گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام ‘مراعات یافتہ ’ اعلیٰ عہدے دار اور ان کے اہل خانہ ، جن پر سے ہمارے تجزیہ کاروں کی انگلیاں ہٹنے کا نام نہیں لیتیں،دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ان آزمائشوں کا سامنا کرچکے ہوتے ہیں۔یقینا اگر اس طرح کے مناظر میں ہم خود کو رکھ کر دیکھیں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ملک کا دفاع کرتے ہوئے جان کس طرح ہتھیلی پر رکھی جاتی ہے۔ہمارے جو نام نہاد دفاعی تجزیہ کار، منرل واٹر کی بوتلیں منہ سے لگائے، ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں آراام دہ صوفوں میں دھنس کر، دہشت گردی سے مقابلے اور دشمن کی جنگی چالوں پر اپنے ارشادات کو تاریخ کی ان مٹ لکیریں جان کر فوج کی تعینا اتیوں اور تبادلوں میں مداخلت کو اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں اگر انہیں ان زمینی حقائق کا پل بھر کو بھی ادراک ہوجائے، تو یقین کریں وہ بھول کر بھی دفاعی تجزیہ کار کے طور پر اپنا تعارف کرانے کی غلطی نہیں کریں گے۔
ہم میں سے اکثر لوگ نہ جانے کیوں اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ دنیا بھر میں فوج سے زیادہ منظم اور Systematicاور کوئی بھی ادارہ نہیں ہوتا۔ اور بات اگر افواج پاکستان کی ہو اس کے نظم و ضبط کی تو دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں۔اگر چند غیر معقول اور کم فہم لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ان کے تجزیے ، تقابلی جائزے اور تبصرے فوج کے نظام میں دراڑ ڈال سکتے ہیں تو اسے ان کی حماقت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ فوج میں سربراہ کی تعیناتی کا ایک باقائدہ نظام موجود ہے، اس نظام کو نہ تو کوئی سیاسی دباؤ متاثر کرسکتا ہے نہ ہی کوئی سماجی پریشر اس نظام پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ فوج میں سپاہی سے لے کر جرنیل تک، سب کی سوچ کا ایک ہی زاویہ نظر ہوتا ہے۔فوج میں کسی ایک فرد کی انفرادی سوچ کبھی بھی ساری فوج پر مسلط نہیں ہوسکتی، پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک مکمل Chain of Command ہوتی ہے جسے کوئی بھی کسی صورت بھی Disturb نہیں کرسکتا۔فوجی اعزازات دیے جانے کا معاملہ ہو یا پھر ترقیاں اور تبادلے، کچھ بھی پہلے سے موجود سسٹم سے ہٹ کر نہیں کیا جاسکتا۔آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایک آرمی چیف کی سروس مکمل ہوجانے پر آئین اور قانون میں موجود اختیارات کی حدود میں رہتے ہوئے حکومت پاکستان فوجی اکابرین کی مشاورت سے نئے آرمی چیف کا چناؤ کرتی ہے۔جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے آرمی چیف کی تقرری بھی انہی حدود میں رہتے ہوئے کی گئی۔ گھر بیٹھ کر فوج کے انتظامی معاملات میں غیر ضروری ٹانگ اڑانے کی خواہش رکھنے والے نادان سورماؤں کو اپنی صلاحیتوں کا کسی اور سمت میں استعمال کرنا چاہیے، انہیں جان لینا چاہیے کہ ان کی‘ فوج بمقابلہ عوام’ والی احمقانہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکے گی کیونکہ فوج اور عوام ہمیشہ سے ایک ہی پیج پر ہیں۔خواب ضرور دیکھیں، یہ آپ کا حق ہے لیکن ایسے خوابوں کا کیا فائیدہ جو آنکھوں کو ہی جلا دیں۔
