ایک برٹش کشمیری صحافی کا دورہ امریکہ

گزشتہ ماہ نومبر کا دوسرا اور تیسرا ہفتہ امریکہ میں مقیم کشمیریوں کے لئے بڑا اہم اور مفید رہا اس دوران برطانیہ میں مقیم نامور صحافی کالم نگار اور اینکر پرسن شیراز خان نے امریکہ میں کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں حقائق جاننے کے لئے متعدد امریکی ریاستوں کاسفر کیا پاکستان اور تحریکِ آزادی کشمیر سے منسلک مختلف اہلِ فکر و نظر نامور تاجروں، دانشوروں سیاسی کارکنوں اور معروف صحافیوں اور متحرک کشمیری نوجوانوں سے انٹرویوز کئے اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کے منفی و مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ان کے دورے کا پہلا پڑاو شگاگو تھا جس کے گرد ونواح میں 90 ہزار کے قریب پاکستانی آباد ہیں کشمیر سالیڈیٹری کونسل کے چیرمین اور جاوید راٹھور نے انہیں مدعو کر رکھا تھا جاوید راٹھور کی دعوتِ میں موصوف کو بہت سے دیگر کشمیری و پاکستانی تاجروں اور سیاسی بصیرت رکھنے والے افراد سے تبادلہ خیال اور مذاکرہ کا موقع ملا شیراز خان کے اعزاز میں جاوید راٹھور نے استقبالیہ دیا جس میں تاجروں کے علاوہ پاکستان کے قونصل جنرل طارق کریم نے بھی شرکت کی شیراز خان کا دوسرا پڑاؤ میری لینڈ تھا جہاں مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے سیّنیر صحافی خورشید الزمان عباسی مقیم ہیں جن کا مختصر تعارف بقول شاعرِ مشرق یوں ہے:
چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند
شیراز خان کی اگلی منزل امریکہ اور دنیا کے دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی تھا جہاں سےموصوف کو تحریک حریت کی ایک قد آور سیاسی وعلمی شخصیت ڈاکٹر غلام نبی فائی کی طرف سے دعوت دی گئی تھی اس سفر میں خورشید الزمان عباسی شریک سفر تھے اس ملاقات میں ڈاکٹر فائی نے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی پر بڑی پُر مغز اور نتیجہ آور گفتگو کی اور بتایا کہ کشمیریوں کی شمولیت اور آزادانہ رائے اور عالمی مداخلت کے بغیر یہ مسلہ بخوبی حل نہیں ہو سکتا اس موقع پر خورشید عباسی نے بھی ڈاکٹر فائی سے کُچھ اہم سوالات بھی پوچھے جبکہ مسلم کانفرنس کے امریکہ میں نائب صدر سردار زبیر اور سردار ظریف نے شیراز خان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا جس میں سینیر صحافی آصف علی بھٹی یوسف چوہدری اور دیگر نے بھی شرکت کی جہاں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے مسلہ کشمیر پر ہونے والے نقصان اور پاکستان کی معاشی ابتری پر شرکاء نے اظہار خیال کیا دورہ کی آخری منزل نیویارک تھی جہاں موصوف کو پرو فیسر رفیق بھٹی صحافی حفیظ کیانی اور مختار احمد نے مدعو کر رکھا تھا شیراز خان کے لئے کونی آئلینڈ نیویارک کے ایک ہوٹل پر دعوت استقبالیہ کا اہتمام تھا جس میں شیراز خان نے اپنے دورے کی غرض و غائیت اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے اپنے خیالات اور امریکی دورہ کے تاثرات بیباکی اور غیر جانبداری سے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حقیقی کشمیری قیادت کے عملی اشتراک کے بغیر یہ تنازعہ حل نہیں ہو سکتا انھوں نے کہا کہ بیرونِ ملک موجود کشمیریوں کو سفارتی اور صحافتی محاذ پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے نیز آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی بااختیار بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنا حقیقی کردار ادا کرے جس کے لئے یہ قائم کی گئی تھی اس دعوتِ استقبالیہ میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ رہنما مختار احمد اور حفیظ کیانی نے بطورِ خاص شیراز خان کی آمد اور مشن کو سراہا اور شیراز خان کو نیویارک آنے پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کا دارومدار ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی وحدت اور ریاستی شناخت پر ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی انتشار اور معاشی زوال سے کشمیر کی آزادی کی تحریک پر منفی اثرات پڑے ہیں اگر پاکستان نےکشمیر پر اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی جیسا کہ بظاہر لگتاہے تو یہ کشمیریوں کی قربانیوں سے انحراف ہوگاہم کشمیر کی تقسیم کے کسی منصوبہ کا حصہ نہیں بنیں گے ہم جانتے ہیں کہ بھارت موجودہ پوزیش بحال رکھنے کی عالمی سازش میں مصروف ہے ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں پاکستان اس کا شکار نہ ہو جائے جو پاکستان کے لئے جان لیوا ہو سکتا ہے تقسیم کرنے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ اسے آزاد کردیا جائے کیونکہ ایک آزاد و خود مختار کشمیر ایک ٹوٹے پھوٹے منقسم کشمیر کے مقابلے میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے کہیں بہتر آپشن ہے اپنے دورہ کے اختتام پر شیراز خان نے پروفیسر بھٹی سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات بھی کی اور کشمیر کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیالات کیا یاد رہے کہ شیراز خان کا یہ دورہ خالصتاً نجی ذاتی حیثیت میں جذبہ جب الوطنی پر مبنی تھا لیکن انہوں نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو بھی جہاں آجاگر کیا وہاں کشمیریوں کی باہم تقسیم اور پاکستان میں سییاسی انتشارات اور عدم استحکام پر امریکہ میں مقیم کمیونٹی کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو کشمیر کاز پر ہونے والے نقصان کا ادارک ہونا چاہیے اور پاکستان میں سیاسی افراتفری کو ختم کرنا چاہیے۔