یہ شیر ہیں صحرا کے، سمندر میں پلے ہیں

غلط فہمیوں کے جنگل میں خود رو بیلیں اس تیزی کے ساتھ پلتی بڑھتی ہیں کہ اصل منظر ہی چھپ جاتا ہے۔ کامیاب زندگی گذارنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ نہ تو خود کو دوسروں سے بالا تر جانو اور نہ ہی دوسرے سے خود کو کم تر سمجھو۔ احساس برتری اور احساس کمتری، دونوں کا شکار ٹیمیں عموماً میچ ہار جاتی ہیں۔مجھ سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں، مجھ سے بڑھ کرہمت والا کوئی نہیں اور مجھے ہرانے والا تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا، اپنے بارے میں ایسی غلط فہمیوں کے شکار بے شمار لوگ آپ کو زندگی کے فٹ پاتھ پر سسکتے، ٹھٹھرتے دکھائی دیں گے۔بین الاقوامی منظر نامے پر بھی بہت سی سیاسی، معاشی، اور عسکری غلط فہمیاں قوموں کی مکمل بربادی کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے، گذشتہ اکتوبر میں ، بھارتی وزیر دفاع رجناتھ سنگھ نے ایک بیان میں بڑھک ماری کہ ہم بہت جلد پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان کو بھی اسی طرح اپنے مکمل کنٹرول میں کر لیں گے جیسے ہم نے مقبوضہ کشمیر کی انفرادی شناخت کو 2019میں ختم کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم یہ سب مودی سرکار کے تشکیل دیے جانے والے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے ہمیں چین سمیت کسی بھی بڑی طاقت کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ بھارتی فوج کی ناردرن کمانڈ کے آفیسر ان چیف جنرل اپیندرا دیوائی نے رجناتھ سنگھ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یقین دلایا کہ ہماری فوج حکومت کے ایک اشارے کی منتظر ہے، ہم سارا منظر ہی بدل دیں گے۔ اس طرح کے ڈرامائی بیانات عام طور پر سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں تاہم بیان دینے والے کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مخاطب کون ہے اور سامنے والا اس کا جواب دینے کی کس قدر قوت رکھتا ہے۔
پاکستان کے لیے اس طرح کی دھمکیوں کے پارسل وصول کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ سچ پوچھیں تو پاکستان کی پچھتر سالہ زندگی اسی طرح کی دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے گذری ہے۔ کبھی اقتصادی بندشوں کی دھمکی تو کبھی عالمی بائیکاٹ کا ڈراوا، کبھی FATFکے نام نہاد گرے لسٹ سے نام نہ نکالنے کا اعلان تو کبھی سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات میں پاکستان کو بدنام کرنے کی تگ ودو، پاکستان ہزار بدخواہوں کی خواہشات بد کے باوجود، آج بھی دنیا کے منظر نامے پر کبھی چاند، کبھی سورج اور کبھی ستاروں کی مانند روشن دکھائی دیتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع اور ناردرن کمانڈ کے چیف کے لیے بہتر ہوگا کہ اپنا وقت اور اپنی توانائیاں ان گیدڑ بھبھکیوں پر ضائع کرنے سے پہلے بھارت ہی کے معروف اخبار ‘دی ہندو’ میں ستمبر 2020میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر نظر ضرور ڈال لیں۔ رپورٹ کے مطابق، 2014سے 2019کے دوران آرڈیننس فیکٹری بورڈ یعنی OFBکے فراہم کردہ غیر معیاری اور گھٹیا اسلحے کے باعث 27کے لگ بھگ جوان اور آفیسر اپنی جان سے گئے اور 146سے زائد ایسے زخمی ہوئے کہ زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ ان میں سے معذور ہونے والے اکثر جوان اور آفیسر یہ شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ کاش ہم اسی وقت مرجاتے کیونکہ ہماری معذوری کے بعد ہم سے ہماری حکومت وہ سلوک کر رہی ہے جو دشمن سے بھی نہیں کیا جاتا۔ ایک سرکاری واقف حال کے مطابق مبلغ904کروڑ روپے مالیت سے زائد کا ایسا اسلحہ فوجیوں کو فراہم کیا گیا جو زائدالمعیاد یعنی Expiredتھا۔ یہ سب صرف اس لیے ہوا کہ بھارتی فوج میں کسی بھی قسم کی پوچھ گچھ اور احتساب کا نظام نہیں۔
فروری 2021میں الجزیرہ نے بھی بھارتی فوج کے زیر استعمال اسلحے اور دیگر جنگی لوازمات اور فوجی صلاحیوتوں کے حوالے سے ایک نہایت تفصیل رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا بھارتی فوج اگرچہ قومی بجٹ کے ایک بڑے حصے سے فیض یاب ہوتی ہے لیکن یہ بڑا حصہ عسکری بیوروکریسی کی بد اعمالیوں اور بے ایمانیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس لاقانونیت کا نتیجہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کے 42سکواڈرنز میں سے صرف 31اس وقت ورکنگ کنڈیشن میں ہیں۔رپورٹ کے مطابق کچھ ایسی ہی ناگفتہ بہ صورت حال ٹینکوں کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔2020کے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان کے پاس 2400کے لگ بھگ ٹینک ہیں جبکہ پاکستان سے کئی گنا بڑے اور طاقت ور ملک بھارت کے پاس کل 3500 ٹینک ہیں جن میں 1000کے لگ بھگ وہ روسی ٹینک بھی ہیں جن کا ہونا نا ہونا برابر ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ بری فوج کے پاس ٹینکوں کی کمی دور کرنے کے لیے مقامی طور پر ارجن نام کا ایک ٹینک بنانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا جو سال ہا سال کی محنت کے بعد بھی نامکمل اور ناکام رہا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اپنے روایتی حریف پاکستان سے مقابلے کی منصوبہ بندی کرنے کے چکر میں بھارت چین کی صورت اپنی سرحدوں پر منڈلاتے خطرے کو بالکل ہی نظر انداز کر بیٹھا ہے۔ ایک انتہائی کمزور فضائیہ اور محض کاغذوں پر کارنامے دکھاتی ایک انتہائی غیر پیشہ ور بحریہ کے ساتھ وسائل کی قلت کا شکار بھارتی بری فوج کے لیے چین کا سامنا کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ہمارے خیال میں پیارے رجناتھ سنگھ کو ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے فوجیوں کو معیاری خوراک اور معیاری اسلحہ فراہم کرنے پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔
رہی بات پاکستان سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر چھین لینے کی ، تو بھارت کو چاہیے کہ اس خواب کی تکمیل کے لیے تجربے کے طور پر ایک آدھ قدم بڑھا کر دیکھ لے، افواج پاکستان اور ساری پاکستانی قوم کی طرف سے وہ منہ توڑ جواب ملے گا جسے کئی دہائیوں تک بھارت کے لیے بھلانا مشکل ہوگا۔ یہی پیغام حال ہی میں ہمارے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی لائین آف کنٹرول کے دورے کے موقعے پر بھارتی سورماؤں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لائین آف کنٹرول کے ‘رکھ چکری ’ سیکٹر میں جوانوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو خبردار کیا کہ ہم اپنی زمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور اگر ہم پر کوئی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس جنگ کو گھسیٹ کر دشمن کی سرحدوں میں لے جائیں گے، اورجنگ وہیں لڑی جائے گی۔ محترم رجناتھ سنگھ اور ان کے پیاروں کے لیے مشورہ ہے کہ آزاد کشمیر، اور گلگت بلتستان میں اپنا شوق مہم جوئی ضرور پوارا کیجئے لیکن وہاں بسنے والے پاکستانیوں کی قوت کو Underestimate کرنے کی غلطی کبھی نہ کیجئے گا۔یہ شیر ہیں صحرا کے، سمندر میں پلے ہیں۔