انسانی جسم ہو، گھر ہو یا پھر ملک، اندر کی کمزوری بیرونی عوامل کو طاقت ور ہونے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔جسم کمزور ہو تو کرونا، ڈینگی، نزلہ زکام اور ہر طرح کے وائیرس یوں حملہ آور ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ جان ہی چلی جاتی ہے۔ گھروں میں بھائی بھائی کا دشمن ہو، بہنیں جائیداد کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناخوش ہوں تو آپس کے اختلافات، باہر والوں کو آگ لگانے کے امکانات فراہم کرتے ہیں اور بالآخر گھر ختم ہوکر چھوٹے چھوٹے انفرادی مکانات میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ملک کی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے آپس کے اختلافات، چھوٹی چھوٹی جنگیں،ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدگی سے بیرونی قوتوں کو انتشار پھیلانے کا موقعہ ملتا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے ہمارے ملک میں جو افراتفری کا ماحول ہے، آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری تمام سرحدی اطراف سے بیرونی مداخلتوں میں اچانک ہی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بھارتی صاحبان اختیار ایک طرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو دوسری طرف افغانستان کی طرف سے آئے روز بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں ہمار ے فوجی قافلوں کو بارودی سرنگوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔بنوں میں قیدی دہشت گردوں نے عملے کو یرغمال بنا جیل پر قبضہ کرلیا۔ یہی نہیں بلکہ اقتصادی حوالوں سے بھی پاکستان کے لیے مشکلات میں جان بوجھ کر اضافہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔افواہوں کی ایک ایسی آگ بھڑک رہی ہے کہ جس میں سب کچھ جل کر خاک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب محض اس لیے ہے کہ ہم اندر سے مضبوط نہیں رہے۔ ساری قوم ٹکڑیوں میں، گروہوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کوئی ایک نظریہ، کوئی متفقہ لائحہ عمل، کوئی ایک جیسی لائین آف ایکشن یا پھر کوئی مشترکہ قومی فلسفہ نہیں جو ساری قوم کو متحد کر سکے۔ ایسی صورت حال میں بیرونی قوتوں کو دراندازی سے روکنا یقینا نہایت ہی مشکل کام ہے۔
پاک افغان سرحد پر سپن بولدک چمن کراسنگ، دونوں ملکوں کے بیچ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی گذرگاہ ہے۔ 15دسمبر کو اسی گذرگاہ پر دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان شدید گولہ باری کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں۔بتایا گیا ہے کہ ان تازہ ترین جھڑپوں میں ایک شخص جاں بحق ہوا اور بارہ سے زائد شدیدزخمی ہوئے۔ اس سے چند روز پہلے عین اسی مقام پر افغانستان کی طرف سے کی جانے والی بلا اشتعال گولہ باری کے نتیجے میں آٹھ پاکستانی شہری اللہ کو پیارے ہوئے۔واضح رہے کہ یہ وہی مقام ہے جہاں پاکستانی صوبہ بلوچستان افغان صوبے قندھار سے جڑتا ہے۔ قندھار وہی علاقہ ہے جہاں کے قندھاری انار دنیا بھر میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔15دسمبر کو ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ گذشتہ اتوار اسی جگہ پر ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے بیچ لگائی گئی حفاظتی باڑ چند ایک مقامات سے ٹوٹ گئی تھی۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اس حفاظتی باڑ کی مرمت میں مصروف تھیں کہ افغانستان کی طرف سے گولہ باری کا آغاز کردیا گیا۔اس طرح کی لاقانونیت پر مبنی واقعات پاک افغان سرحد پر ایک معمول کا حصہ ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ کہ یہی وہ افغانستان ہے کہ جس پر جب بھی کوئی برا وقت آیا، پاکستان نے اپنے بدترین حالات کے باوجود بھی اس کی بھرپور معاشی اور سیاسی مدد کی۔ اپنے حصے کی روٹی افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو کھلائی، اپنی زمین پر ان افغانوں کو کاروبار کی نہ صرف اجازت دی بلکہ وسائل بھی فراہم کیے لیکن ہمارے ان مسلمان بھائیوں کے دل میں نہ جانے نفرت کی کیسی آگ ہے جو کسی صورت بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔اگر مد مقابل طاقت ور ہو تو بزدل اس کی خلاف نفرت کواپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے اور اگر مد مقابل کسی وجہ سے کمزور ہو تو بزدل کی پہلی پہچان یہ کہ وہ اس کمزوری کو کیش کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ افغانستان ہو یا بھارت، ہمارے دونوں ہمسایوں کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف قسم کے کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہو یا پھر کسی سیاسی یا اقتصادی مسئلے کا شکار ہو،یہ دونوں ممالک پاکستان میں سرحد پار سے گڑ بڑ شروع کروادیتے ہیں۔
سنہ 2021میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا جب جماعت الدعوہ کے امیر جناب حافظ سعید کی رہائش گاہ جوہر ٹاؤن لاہور کے باہر ایک دھماکہ ہوا جس میں چار افراد اپنی جان سے گئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان FATFکی نام نہاد گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش میں تھا۔پاکستانی تحقیقاتی ادارے اس وقت سے اس کیس میں ملوث اصل کرداروں کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ابھی حال ہی میں 15دسمبر کو اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور محترمہ حنا ربانی کھر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک دستاویز پیش کی جس میں مذکورہ دھماکے میں بھارتی دہشت گردوں کے ملوث ہونے ٹھوس شواہد اور ثبوت موجود تھے۔محترمہ حنا ربانی کھر صاحبہ نے صحافیوں سے اس گفتگو کے دوران کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے بھارت سے زیادہ دہشت گردی کو اپنے مفاد میں استعمال نہیں کیا، اسی لیے ہم بھارت کو ایک Rogue Stateیعنی بدمعاش ریاست کہتے ہیں۔بھارت ہو یا افغانستان، یقین رکھیے، ان ممالک کے لیے سب سے بڑی خوشی اور اطمینان کی بات ہی یہی ہے کہ پاکستان انتشار کا شکار رہے لیکن انہیں یہ خوشی صرف اس صورت میں حاصل ہوسکے گی جب پاکستان اندرونی طور پر کمزور ہوگا۔ ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان کو شکست دینے کے لیے یہ دونوں ممالک اکھٹے بھی ہوجائیں تو انہیں کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ملکوں کے استحکام کا تعلق اداروں کے استحکام سے ہوتا ہے۔ ادارے کمزور ہوں گے تو معاشی، اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی، ہر طرح کا انتشار دیکھنے کو ملے گا۔
تعلیم کے شعبے کو ہی دیکھ لیجیے، ہمارے ہاں تعلیم برائے تعمیر کردار کی بجائے برائے حصول روزگار ہوتی ہے۔ہمارے طلبا و طالبات کو سولہ سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدچپراسی کی نوکری بھی نہیں ملتی۔مختلف مضامین میں ایم فل کرنے والوں کی بھرمار ہے لیکن ان میں اکثریت ان کی ہے جو اپنے مضمون کی بنیادیات سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ سائینس اور ٹکنالوجی کی تعلیم دینے والے اداروں سے فارغ التحصیل طلباو طالبات کا علم بھی محض کتابوں تک محدود ہوتا ہے، یہ طلبا و طالبات ریسرچ اور ایجادات کی طرف کبھی قدم ہی نہیں بڑھاتے۔ ہر برس ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوان ITکی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی گوگل کے مقابلے کے لیے اپنا سرچ انجن نہیں بنا سکا۔ہماری نئی نسل کے لیے ITایجوکیشن کا واحد مقصدٹک ٹاک بنانار ہ گیا ہے۔ ہمیں اس خونخوار معاشرے میں اگر بحیثیت قوم زندہ رہنا ہے تو اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔تعلیم، انصاف،تحفظ عامہ اور اسی طرح کے دیگر معاملات کو سنبھالنے کے ذمے دار اداروں کے کردار پر نظر ثانی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ملکی سلامتی کے ذمے دار اداروں کو اپنے ذاتی عناد کی تسیکن کے لیے متنازعہ بنانے کی خواہش کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان اداروں کا وجود اس بکھرتے معاشرے کو متحد رکھنے کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے زندگی کے لیے آکسیجن۔ دوسروں کے سیاسی نظریات کی عزت کرنا سیکھیے، بات کہنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے، لازم نہیں کہ ہر شخص آپ ہی کی آنکھوں سے منظر کو دیکھے، تمام ذہن آپ کے زاویہ نگاہ کو نہیں اپنا سکتے، ہر زبان آپ کی پسند کے لفظ نہیں بول سکتی۔برداشت اور رواداری کی گھنی چھاؤں میں، خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں لیکن زندگی کی خواہش میں اخلاقی اقدار کو پیروں تلے روندنا کسی بھی معاشرے میں قابل تحسین عمل نہیں ہوتا۔نا انصافی پر مبنی رویے ہری بھری زندگی کو راکھ کردیتے ہیں۔
