بورس جانسن مستعفی، سالانہ پارٹی کانفرنس میں نیا پارٹی لیڈر منتخب ہونے تک وزیر اعظم رہینگے

لندن (عمران راجہ) برطانوی وزیر اعظم نے بالآخر ارکان پارلیمنٹ کے دبائو کے سامنے جھکتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے، اپنی رہائش گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خاطاب کرتے ہوئے انہوں نے پارٹی لیڈرشپ چھوڑنے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ وہ نئے وزیراعظم کے آنے تک وزارتِ عظمیٰ کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ واضع رہے برطانیہ میں اکثریتی پارٹی کا سربراہ ہی وزارت عظمیٰ کا حقدار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی جو بھی نیا لیڈر منتخب کرے گی اس کی مکمل سپورٹ کروں گا۔

اپنے خطاب میں بورس جانسن کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی ایک نئے لیڈر اور ایک نئے وزیراعظم کا انتخاب چاہتی ہے۔ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1922 کمیٹی کے چیئرمین سر گراہم بریڈی کو اپنے استعفی سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1987 کے بعد کنزرویٹیو پارٹی نے کسی بھی انتخاب میں میری قیادت میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

بورس جانسن کا مزید کہنا تھا کہ وہ کابینہ اراکین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کہ کہ وزیراعظم کی تبدیلی درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنی حکومت کے دوران حاصل کامیابیوں پر بہت فخر ہے، بریگزٹ کی تکمیل، کورونا وبا سے ملک کا نکالنا اور مغربی ممالک کو یوکرین میں روسی جارحیت کے خلاف اکٹھا کرنا بڑی کامیابیاں ہیں۔ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اعتراف کرتا ہوں کہ سیاست میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا، برطانوی عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی بہترین جاب چھوڑنے پر انتہائی افسوس ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر اور لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر سٹارمر نے وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے اعلان کو خوش آئیند قرار دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کہ بورس جانسن کا استعفیٰ قوم کے لیے خوشخبری ہے۔ سرکیئر اسٹارمر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس منصب کے لیے وہ کبھی بھی موزوں نہ تھے کیونکہ بورس جانسن جھوٹ، فریب اور اسکینڈلز کے ذمہ دار ہیں، وہ تمام افراد جنہوں نے بورس جانسن کا ساتھ دیا ان کے لیے شرمندگی کا مقام ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں